سپریم کورٹ سے محمد عمران بنام ریاست پاکستان فیصلہ سنایا گیا جس میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس کی تائید کی ہے کہ ملزم محمد عمران پر ریپ کا جرم ثابت نہیں ہوا جبکہ زنا کا جرم ثابت ہوتا ہے اس لیے سزا کو دس سال قید سے کم کر کے پانچ سال کر دیا گیا ۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور اس کی بنیاد پر ایک اختلافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے ریپ کے الزام کو مسترد کرنے کی وجوہات کو نامناسب قرار دیا۔
واقعہ کی تفصیلات:
شکایت کنندہ (ممتاز بی بی) نے دعویٰ کیا کہ 11 جولائی 2016 کو رات 8 بجے ملزم محمد عمران نے ان کے بھائی کے گھر میں داخل ہو کر ان کے ساتھ زبردستی ریپ کیا۔ اس واقعہ کی اطلاع ممتاز بی بی نے اپنے بھائی محمد زمان اور محمد وسیم اکرم کو دی۔ اس کے بعد، ممتاز بی بی نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروائی اور انہیں فوری طور پر میڈیکل چیک اپ کے لیے بھیجا گیا۔ جہاں ڈی این اے نمونے لیے گئے۔ ڈی این اے رپورٹ مثبت آئی جس میں ملزم کی شناخت ثابت ہوئی۔ ملزم کو گرفتار کیا گیا اور ٹرائل کورٹ نے اسے ریپ اور گھر میں غیر قانونی داخلے کے الزام میں سزا دی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
:سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ
اکثریتی بنچ نے فیصلہ کیا کہ شکایت کنندہ ریپ کے الزام کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ ڈی این اے رپورٹ مثبت ہونے کے باوجود، یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ عمل زبردستی تھا۔ اکثریتی بنچ نے ریپ کی بجائے زنا (fornication) کے جرم کی تصدیق کی اور سزا کو تبدیل کیا۔ اکثریتی بنچ نے بیان کیا کہ ریپ کے ثبوت کے لیے زبردستی کا عنصر ضروری ہے۔ چونکہ ملزم غیر مسلح تھا اور شکایت کنندہ نے کسی قسم کی جسمانی مزاحمت نہیں کی، اس لیے زبردستی ثابت نہیں ہو سکی۔ ڈی این اے رپورٹ کے باوجود، شکایت کنندہ کی جانب سے رضامندی کی ممکنہ موجودگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک کااختلافی نوٹ:
جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ ریپ کے الزام کو مسترد کرنے کے لیے شکایت کنندہ کی جانب سے جسمانی مزاحمت کی عدم موجودگی کو بنیاد بنانا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ زبردستی ثابت کرنے کے لیے جسمانی مزاحمت ضروری نہیں، بلکہ مختلف حالات کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ ریپ کے مقدمات میں شکایت کنندہ کی گواہی کو اہمیت دی جانی چاہیے اور اس کی سچائی کو محض جسمانی مزاحمت کی عدم موجودگی پر مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ ریپ کے مقدمات میں جسمانی مزاحمت کو ثابت کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ مختلف افراد مختلف طریقوں سے صدمے کا سامنا کرتے ہیں۔ تمام خواتین کو اس سٹیریوٹائپیکل مفروضے پر پرکھنا کہ انہیں کسی خاص شکل میں مزاحمت کرنی چاہیے تاکہ ریپ کو ثابت کیا جا سکے، بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ مقدمات اس تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں جس میں متاثرہ کی بیان اور معاون سائنسی شواہد پر انحصار کیا جاتا ہے تاکہ ریپ کو ثابت کیا جا سکے اور جھوٹے مفروضوں، روایات اور سٹیریوٹائپیکل دلائل کو مسترد کیا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ڈی این اے رپورٹ اور شکایت کنندہ کی فوری اطلاع کوبنیادی اہمیت دی جانی چاہیے۔
جسٹس عائشہ اے ملک کا اختلافی نوٹ کا جائزہ:
جسٹس عائشہ اے ملک کے اختلافی نوٹ نے متاثرہ خواتین کے مقدمات میں انصاف کے پیمانوں کو متاثرہ خواتین کے نظریے سے دیکھنے کا کہا ہے، جہاں انہوں نے متاثرہ خاتون کے نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے روایتی عدالتی اصولوں سے انحراف کیاہے۔ یہ نوٹ اس بات کا مظہر ہے کہ ریپ (rape) جیسے سنگین جرائم میں متاثرہ کی گواہی اور تجربے کو کیسے قانونی اہمیت دی جانی چاہیے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنے اختلافی نوٹ میں اس بات پر زور دیا کہ ریپ کے مقدمات میں متاثرہ کی گواہی کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ جسمانی مزاحمت کی عدم موجودگی کو بنیاد بنا کر ریپ کے الزام کو مسترد کرنا غیر منصفانہ ہے۔ جسٹس عائشہ کا موقف ہے کہ ریپ کے مقدمات میں متاثرہ کی گواہی کو ایک اہم ثبوت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ جسمانی مزاحمت یا دیگر ثانوی شواہد پر انحصار کیا جائے۔
روایتی نقطہ نظر میں، ریپ کے مقدمات میں زبردستی کے عنصر کو ثابت کرنے کے لیے جسمانی مزاحمت کو ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جسٹس عائشہ اے ملک نے اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ریپ کے مقدمات میں زبردستی کے عنصر کو ثابت کرنے کے لیے مختلف حالات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ کی گواہی، ڈی این اے (DNA) رپورٹ، اور شکایت کنندہ کی فوری اطلاع جیسے عوامل کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے اس مقدمے کی سماعت میں متاثرہ کی طرف سے پیش کی گئی تفصیلات اور شواہد کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ ان کے نوٹ میں شامل تمام عوامل جیسے کہ متاثرہ کی فوری شکایت، میڈیکل رپورٹس، اور ڈی این اے شواہد کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ نوٹ مستقبل کے عدالتی فیصلوں کے لیے ایک مضبوط نظیر بن سکتا ہے، جہاں متاثرہ کی گواہی اور تجربے کو اہمیت دی جائے۔اس نوٹ نے خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور قانونی نظام میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف ایک مضبوط موقف فراہم کیا ہے۔
یہ نوٹ عدالتی اصولوں کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرسکتا ہےاور عدالتی نظائر میں تنوع پیدا کرسکنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے مقدمات میں انصاف کے حصول کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس اختلافی نوٹ کے ذریعے ججز اور وکلاء کی تربیت کا کام لیا جاسکتا ہے اس نوٹ کو شامل کر کے انہیں حساس، جامع نقطہ نظر اورمتاثرہ خاتون کے نظریہ پر تربیت فراہم کی جا سکتی ہے۔